(طریقہ نمبر 12) اپنی لائبریری کو پہیوں پر رکھیں

آج اپنے آپ کو موٹی ویٹ کرنے کے جس طریقے پر میں لکھوں گا وہ ہے چلتی پھرتی لائبریری، جی ہاں آپ اپنے لائبریری کو ۴ پہیوں پر منتقل کر سکتے ہیں۔ جب آپ کار ڈرائیو کر رہے ہوتے ہیں اس وقت آپ جو کام کرتے ہیں ان میں ایک گاڑی چلاتے ہوئے گپیں لگانا دوسرا کوئی ہپ ہاپ میوزک سننا یا پھر ٹریفک رش کی وجہ سے ٹریفک رش کو کوستے رہنا۔ اس کے علاوہ آپ اپنے وقت کا کوئی مثبت استعمال نہیں کرتے۔ بالفرض آپ ایف ایم پر تازی ترین ملکی حالات کے بارے میں باخبر رہنے کیلئے خبریں سنتے ہیں۔ یہ خبریں ہماری زندگیوں میں بجائے مثبت تبدیلی لانے کے ہماری شخصیت کو منفی بنانا شروع کر دیتی ہیں۔

کیونکہ ریڈیو، ٹی وی یا انٹرنیٹ پر نیوز چینل کبھی بھی آپ کو مرچ مصالحہ کے بغیر خبر نہیں سنیائیں گے۔ وہ خبر کی سچائی کی بجائے اسے مرچ مصالحہ لگا کر لوگوں کے اندر کشش پیدا کرتے ہیں کہ لوگ ان کی سنسنی خیز خبروں کو سننے کیلئے ان کے پرگرام سے جڑے رہیں۔

اس طرح کے سنسنی خیز بیان، خبریں یا پھر کوئی فلمایا ہوا ٹی وی شو لمبے عرصے تک دیکھتے رہنے سے ہمارے دماغ میں موجودہ معاشرے کا مسخ شدہ نظریہ بنتا ہے۔ ہمیں وہ تمام منفی پہلو نظر آتے ہیں جو میڈیا مالکان ہمیں دکھاتے ہیں۔ اگر میڈیا مثبت چیزیں دکھانا شروع کر دے تو لوگ اسے قبول کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کیونکہ یکے بعد دیگرے میڈیا چینلز اور پرنٹ میڈیا اپنی منفی خبروں کی وجہ سے لوگوں کی سوچ کو منفی بنا چکا ہے۔

اب لوگ انتہائی بے ہودہ قسم کی خبروں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں، الیکٹرانک میڈیا بھی ایسی چیزوں پر فوکس کرتے ہوئے ایسی خبروں پر کئی کئی لمبے پروگرام کرتے ہیں۔ معاشرے کی اچھائی کی بجائے بگڑے معاشرے کی منظر کشی کی جاتی ہے۔ ریاست میں عدم استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے نظریات بدلے جاتے ہیں۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

ایسی خبروں کو پسند کرنے والوں کی اس بھیانک بھوک کو مٹانے کیلئے کئی ٹک ٹاکر، کئی میڈیا ورکرز ایسی خبریں ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ آپ اس بات کو نوٹ کر لیں جس دن اخبار یا ٹی وی چینل پر قتل، ڈکیتی، یا عصمت دری کی خبر نشر نہ ہو اس دن ایسا لگتا ہے جیسے میڈیا والے مر گئے ہیں۔ سنسی خیز خبریں پڑھنے اور سننے والوں کو مزا نہیں آتا۔ لہذا اس طرح کی خبریں بھی لوگوں کی نفسیاتی بھوک مٹانے کیلئے نشر کی جاتی ہیں۔ جس سے معاشرہ بہتر ہونے کی بجائے بگڑتا ہی ہے۔

ان سب باتوں سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس طرح کی خبریں سننے والا جب یہ ماننا شروع کر دیتا ہے کہ خبر نشر کرنے والا ادارہ حرف بہ حرف درست خبریں دیتا ہے۔ اس لئے جو بھی برائی ہو رہی ہے اس میں معاشرہ قصور وار ہے۔ میڈیا کا کوئی کردار نہیں۔ یہ سب جان بوجھ کی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خوف زدہ لوگ ایک متعصب سامعین ہوتے ہیں اور مشتہرین اسے اسی طرح پسند کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہتے کہ ان کا سامع ان کے چینل سے ہٹ جائے اور ان کی ریٹنگ خراب ہو۔ میڈیا نے کسی ایک سٹوری کو طول دینے کے طریقے بھی تلاش رکھے ہیں جن کی نتائج واقعی خراب ہیں۔ میڈیا چنیلز چاہتے ہیں کہ ہم انہیں ایک بار نہ سنیں بلکہ بار بار انہی کی پروگرام کو سنیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی طیارہ حادثہ کا شکار ہو جاتا ہے تو ہم پورے ہفتہ اسی واقعہ کو بار بار دیکھتے اور سنتے ہیں۔ جب کہ تفتیش کرنے والے افراد ان خبروں پر کان دھرنے کی بجائے طیارے کے ملبے کی جانچ پڑتال کو چنتے ہیں۔ اور متاثرہ خاندان ان چینلز کے سامنے بیٹھ کر خبریں بھی سنتے ہیں اور روتے بھی رہتے ہیں۔ پھر کچھ دنوں کی بعد طیارے کا بلیک باکس مل جاتا ہے۔ اور پھر اگلہ پورا ہفتہ پائلٹس کی حادثہ سے پہلے کی گفتگو انہیں چینلز کی ترجیح ہوتی ہے۔

حالانکہ اب فضائی حادثات نہ ہونے کے برابر ہیں، فضائی حفاظت پہلے سے کہیں بہتر ہے۔ لاکھوں طیارے بغیر کسی واقعے کے ٹیک آف اور لینڈ کر رہے ہیں۔ محفوظ پرواز کی ٹیکنالوجہ میں دن بدن بہتری آئی ہے۔ اور ہوائی سفر کرنے والوں کی شرح اموات بھی کم ہوئی ہے۔ کیا میڈیا چینلز اس بات کو بار بار دہرائیں گے؟ ہرگز نہیں کیونکہ لوگوں کی ترجیح اب سنسی خیز خبروں تک محدود ہے اس لئے ان تمام باتوں کا جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے میڈیا چینلز اور ان کے سامعین دونوں کو اس میں کوئی مزا نہیں آنے والا۔ ان نام نہاد خبروں اور نمائندگان میں ہماری نفسیات کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ ہمیں مثبت سوچنا ہی نہیں آتا۔

اب میں اپنے موضوع کو مزید وضاحت سے بیان کروں گا۔ آپ دوران ڈرائیونگ دہشت ناک خبریں سننے کی بجائے اپنے لائبریری کو ڈیجیٹل لائبریری میں تبدیل کریں۔ آپ مصنوعی دہشت سے باہر نکل آئیں۔ آپ کو ڈرائیونگ کے دوران دو طرح کا فائدہ ہونے والا ہے۔ ایک آپ اپنے آپ کو موٹی ویٹ کرنا اور دوسرا اپنے علم کو بڑھانا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ کا زمان ہے آپ کو بہت سارا علمی زخیرہ مفت میں مل جائے گا۔ آج کے اس مصروف دور میں آپ کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ آپ اپنے لئے وقت نکال کر کسی لائبریری میں مطالعہ کیلئے چلے جائیں۔ یا پھر کسی اچھے لکھاری کی اپنے آپ کو متحرک یعنی موٹی ویٹ کرنے والی کوئی کتاب پڑھ لیں۔

یہ دونوں کام کرنا آج بہت آسان ہو گیا ہے۔ آپ ان کتب کو ڈیجیٹل لائبریری یعنی ایم پی تھری یا فور میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ آپ دوران ڈرائیونگ ان کتب کی آڈیو یا ویڈیو سنیں تاکہ آپ اپنے آپ کو موٹی ویٹ کر سکیں اور اپنی علمی صلاحیتوں کو بڑھا سکیں۔ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کرنا سیکھیں۔ فضول میں مختلف ایپلیکشنز پر صرف ناچ گانا، یا کوئی کمنٹ کرنے کی بجائے اپنی اس وقت کو قیمتی بنائیں، اپنے علم میں اضافہ اور اپنے کام میں مہارت حاصل کریں۔ اس وقت انٹرنیٹ کی سہولت کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ یوٹیوب آپ کیلئے سب سے بہترین استاد کا کام کر رہا ہے۔ آپ یوٹیوب پر جا کر اپنے کام سے متعلق مہارت اور کامیابی کیلئے ویڈیوز دیکھ کر بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح اپنی ڈیجیٹل لائبریری میں اضافہ کرتے جائیں اور اسے اپنی چار پہیوں والی لائبریری میں تبدیل کرتے جائیں۔

ایک امریکی مضمون نگار، شاعر، اور مقبول فلسفی، رالف والڈو ایمرسن (1803-82) نے اپنے کیریئر کا آغاز بوسٹن میں ایک یونیٹیرین وزیر کے طور پر کیا، لیکن ایک لیکچرر اور “خود انحصاری،” “تاریخ” جیسے مضامین کے مصنف کے طور پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ “ہم وہی بن جاتے ہیں جس کے بارے میں ہم سارا دن سوچتے ہیں” بس اسی بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لیں اور اپنے اردگرد نوٹ کریں لوگ کیا ہیں اور وہ کیا پسند کرتے ہیں۔ آپ کو ایمرسن کی بات بالکل سچ ثابت ہوتی نظر آئے گی۔

ایمرسن کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ اگر ہم کسی مشہور ڈانسر کے ڈانس کے بارے میں سوچیں گے تو ہمارا شوق ڈانس سیکھنے اور دیکھنے کیلئے بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح اگر ہم کسی علمی شخصیت کے پاس بیٹھنا شروع کر دیں گے تو ہم اس کے علم سے نہ صرف فائدہ حاصل کرتے ہیں بلکہ اسی کے علم کو پھیلانے کا سبب بنتے ہیں کل تک جو عالم تھے وہ اس دنیا سے چلے جائیں گے مگر ان کی جگہ آپ لے چکے ہوں گے۔ آپ دنیا کے عالم ہوں گے، لوگ آپ سے راہنمائی لینے کیلئے دور دراز سے آئیں گے۔ ایک مشہور قول ہے کہ “نیک لوگوں کی صحبت انسان کو نیک بناتی ہے۔ اور برے لوگوں کی صحبت برا انسان بنا دیتی ہے”

اگر آپ اپنے گاڑی کو چلتی پھرتی لائبریری میں تبدیل کر لیتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ایک آڈیو یا ویڈیو لیکچر دیکھتے ہیں اور سیکھتے ہیں تو یقین جانیں ۳ ماہ کے قلیل عرصے میں آپ کسی ایسے طالبعلم سے زیادہ علم حاصل کر لیں گے جو وہ ایک سمسٹر میں کسی تعلیمی ادارے سے سیکھتا ہے۔ اس طرح آپ اپنے ڈرائیونگ کے دوران خرچ ہونے والے وقت کو انتہائی قیمتی بنا سکتے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو موٹی ویٹ کر کے اپنی زندگی، کاروبار یا ادارے کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ کیا تمام موٹی ویشنل لیکچر اور کتابیں سب کیلئے یکساں موثر ہوتی ہیں؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ تمام موٹی ویشنل کتابیں و لیکچرز انٹرنیٹ پر خریدنے یا ڈائون لوڈ کرنے سے پہلے صارفین کے جائزے پڑھ لینا اچھا ہوتا ہے۔ جس پر لوگوں نے کھل کر داد دی ہو، اس سے کچھ سیکھا ہو اور وہ جائزے میں شئیر کیا ہو اس کتاب کی آڈیو کو ضرور ڈائون لوڈ کریں۔

Choosing your own greatnessسٹیو چانڈلر لکھتے ہیں کہ وہ ایک دن اپنی گاڑی میں وین ڈائر کی کلاسک آڈیو سیریز “آپ کی اپنی عظمت کا انتخاب” سن رہا تھا۔ وین ڈائرنے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہماری ہر خوشی کسی مادی چیز سے جڑی ہوئی ہے۔ اس نے دلائل دئے کہ خوشی کسی مادی چیز کی محتاج نہیں ہوتی۔ آخر میں بہت ہی قیمتی الفاظ کہے وہ یہ کہ “خوشی کا کوئی راستہ نہیں ہے، بلکہ خوشی خود ایک راستہ ہے۔” اس بات کا سن کر میں جھومنے لگا اور اپنی خوشیوں کو مادی چیزوں سے ماورا سمجھ کر ان کی تلاش میں لگ گیا۔ وین ڈائر کی اس آڈیو نے مجھے جو سکھایا شاید میں وہ سب کچھ کئی کتابیں پڑھ کر بھی نہ سیکھ پاتا۔

سٹیو چانڈلر مزید اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ وین ڈائر، ماریان ولیمسن، کیرولین مائس، باربرا شیر، ٹام پیٹرز، ناتھانیئل برانڈن، ارل نائٹنگیل، ایلن واٹس، اور انتھونی رابنز صرف چند موٹی ویٹرز تھے جن کی ٹیپس نے میری زندگی بدل دی۔ آپ کو اپنی پسند کی چیزیں مل جائیں گی۔ آپ کو لائبریری میں پڑھنے کے لیے وقت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لائبریری کو بھول جاؤ۔ آپ اپنی لائبریری کہ پہیے لگائیں اور ترقی کرتے جائیں۔