خوراک، غذائیت اور صحت کا تعارف

“خوراک، غذائیت اور صحت”، یقینا آپ سوچتے ہوں گے کہ خوراک اور غذائیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ غلط سوچتے ہیں۔ یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ خوراک سے مراد ہر وہ چیز جسے ہم انرجی لینے کیلئے کھاتے اور پیتے ہیں۔ غذائیت سے مراد کھانے کا وہ حصہ ہے جو ہمارے جسم میں موجود خلیات یعنی سیلز کے ذریعے استمعال ہوتا ہے۔ جسے ہمارے جسم میں میٹابولائز کیا جاتا ہے تاکہ وہ تمام ضروری اجزاء بنائیں جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہے۔ تمام غذائی اجزاء ہم صرف کھانے سے حاصل نہیں کر سکتے۔

ہم تیزی سے بدلتے ہوئے عناصر کی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ عناصر ہر لمحے بدل رہے ہیں۔ ان عناصر کے بدلنے سے ہماری ماحولیاتی تبدیلیاں، آبادی کی شرح، خوراک کی فراہمی، جسمانی تبدیلیوں کیساتھ ساتھ ہمارے جذباتی ردعمل بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے روز مرہ کے اہداف بھی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ اگر ہم تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق خوراک، غذائیت اور صحت کے بارے میں ٹھوس قدم نہیں اٹھائیں گے تو ہمیں مختلف امراض کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس سے ہماری روزمرہ کی کارکردگی پر حرف آتا ہے۔ غذائیت کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ اس سے ہمیں اپنی اور دوسروں کی صحت کو برقرار رکھنے میں راہنمائی ملتی ہے۔

غذائیت وہ خوراک ہے ہم استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ نیوٹریشن سائنس کے علم کی وہ شاخ ہے جس میں زندگی کے تمام پہلوئوں جیسے نشو و نما، جسمانی سرگرمیاں، عمل تولید، اور جسمانی ساخت کو برقرار رکھنے اور دیکھ بھال کیلئے غذائیت کو کنٹرول کرتی ہے۔ جب کہ ڈائیٹکس میڈیکل سائنس کا ایک شعبہ ہے۔ جس میں غذایات کا ماہرانسانی صحت کو فروغ دینے اور بیماری کے علاج کیلئے نیوٹریشن سائنس کو لاگو کرتا ہے۔

ایک کوالیفائیڈ ماہرغذایات کو نیوٹریشنسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہی کوالیفائیڈ ماہر غذایات لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال کرنے کی بھاری ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ اعلی معیار کی غذا زندگی بھر اچھی صحت کیلئے ضروری ہے، جو پیدائش سے پہلے کی زندگی سے شروع ہوتی ہے اور بڑھاپے تک جاری رہتی ہے۔ صحت کی آسان ترین الفاظ میں تعریف بیماریوں کی عدم موجودگی کے طور پر کی گئی ہے۔

تاہم زندگی کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت کی تعریف اتنی سادہ نہیں، بلکہ پیچدہ ہے۔ اس کی وجہ بنیادی ضروریات جیسا کہ جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور سماجی بہبود کی تکمیل کیلئے ہمیں اس کی بنیادوں پر خصوصی توجہ کرنے کی ضروت ہے۔ اس نظریہ کے تحت ایک فرد کو مجموعی طور پر جانا جاتا ہے۔ فلاح و وبہبود اور صحت کو اندرونی اور بیرونی ماحول سے جوڑا جاتا ہے۔ جس سے فلاح و بہبود کے نقطہ نظر کو مزید وسعت ملتی ہے۔ فلاح و بہبود تمام لوگوں کیلئے دیئے گئے ماحول میں یکساں مواقع اور مکمل نشوونما چاہتا ہے۔

لی سینٹ گلوب ہیلتھ ۲۰۲۲ کی رپورٹ کے مطابق کم آمدنی اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لوگوں پر غذائی اور آمدنی میں کمی کا دوہرا بوجھ ہوتا ہے۔ اسی طرح ان ممالک میں غذائی عدم مساوات پایا جاتا ہے۔ یعنی غذا کی زیادتی یا غذا کی کمی دونوں ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ لی سینٹ گلوب ہیلتھ کا سروے غذائی کمی اور عالمی عدم مساوات آمدنی کی نشاندہی کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے ماں اور بچے کی افزائش و نشو ونما رک جاتی ہے۔ اور ان سب کا تعلق کسی بھی ملک کی آمدنی،کسی بھی گھرانے میں معاشی، سماجی اور سیاسی عالمگیریت کے ساتھ ہوتا ہے۔

امراض سے روک تھام کے روایتی طریقے

پرہیزی غذا کھانے سے مراد احتیاطی تدابیر، روز مرہ کی دیکھ بھال اور پیش آنے والے خطرات کے عوامل کی پہلے سے نشاندہی کرنا ہے، جو کسی بھی آدمی کے صحت کے کسی خاص مسئلے کے پیدا ہونے کے چانسز کو بڑھاتے ہیں۔ ان عوامل سے آگاہی ہونے سے لوگ غذا اور طرز زندگی کے طرز عمل کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یہ عوامل اس شخص کیلئے بیماری کے خطرات کو روکیں گے یا کم کریں گے۔

صحت کی دیکھ بھال کا روایتی طریقہ اس وقت بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے جب بیماری یا بیماری کی علامات پہلے سے موجود ہوں۔ اس طرح جو بیمار ہیں وہ بیماری کی تشخیص کیلئے کسی ماہر معالج  یا ماہر غذایات سے رجوع کرتے ہیں تاکہ ان کا علاج ہو سکے یا ان کی بیماری بڑھنے سے رک سکے۔

متوازن غذا کی اہمیت

متوازن غذا کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ صحت مند انسانی جسم کی مناسب بناوٹ، اچھا قد، متناسب وزن، مسلز یعنی پٹھوں کی اچھی نشوونما جسم میں چربی کا انتہائی کم ہونا یا مناسب ہونا ہے۔ مزید یہ کہ صحت مند شخص کی جلد ملائم اور صاف ہوتی ہے، بال گھنے اور چمکدار ہوتے ہیں۔ آنکھیں صاف اور روشن ہوتی ہیں ان می پیلاہٹ یا سرخی نہیں ہوتی۔ صحت مند شخص کی بھوک، نظام انہضام، اور نظام اخراج بہتر ہوتا ہے یعنی دائمی قبض یا اسہال کا شکار نہیں ہوتا

۔ اچھی صحت رکھنے والے لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر زیادہ چوکس اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور ہمیشہ مثبت نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ غذائی کمی کے شکار لوگون کے مقابلے میں متعدی بیماریوں کیخلاف مزاحمت بھی زیادہ رکھتے ہیں اور وہ بہت کم ہی بیمار ہوتے ہیں۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں صحت مند مردوں کی اوسط عمر ۷۶ سال اور خواتین کی اوسط عمر ۸۲ سال تک ہے۔

اچھی خوراک اور صحت مند زندگی انسانی ضروت ہے۔ کچھ لوگوں کی زندگی میں صرف پیٹ بھرنا ہی کافی ہوتا ہے۔ وہ اس بات سے بالکل لاعلم ہوتے ہیں کہ صحت مند زندگی گزارنے کیلئے مناسب ضروری غذائی اجزاء کا خوراک میں شامل ہونا کتنا ضروری ہے۔ صرف پیٹ بھر کر کھا لینے سے تمام غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اور ایسا شخص غذائی کمی کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے وہ مختلف امراض اور قوت مدافعت میں کمی کا شکار ہو جاتا ہے۔

ہم روز مرہ استعمال ہونے والی غذا کو “ضروری، غیر ضروری اور توانائی پیدا کرنے والے غذائی اجزاء میں تقسیم کرتے ہیں۔ انسانی غذائیت میں چھ ضروری غذائی اجزا مندرجہ ذیل ہیں۔

کاربوہائیڈریٹس یعنی نشاستہ

پروٹین یعنی لحمیات

فیٹس یعنی چکنائیاں

وٹامنز

منرلز یعنی معدنیات

پانی

آپ کی صحت کی دیکھ بھال کرنے والے افراد جن میں معالج، ماہرین غذا، نرسز اور حکماء سبھی ان غذائی اجزا سے بخوبی واقف ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ علاج معالجے کے دوران پرہیزی غذا اور اس کے کھانے کا طریقہ بتاتے ہیں۔

کھانے میں غذائی اجزاء کے اہم کام

صحت مند زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہماری خوراک میں موجود غذائی اجزاء تین اہم افعال سر انجام دیں جن میں نمبر۱ توانائی فراہم کرنا نمبر۲ عضلات یعنی ٹشوز کو بنانا اور نمبر ۳ میٹابولک عمل کو منظم کرنا۔ جس خوراک میں غذائی اجزاء یہ تینوں کام نہ کریں وہ خوراک ہمارے جسم کیلئے بہتر نہیں ہو سکتی۔

میٹا بولزم سے مراد جسم کے تمام عوامل کا مجموعہ ہے جو زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے بنیادی کاموں کو پورا کرتے ہیں۔ تمام غذائی اجزاء اور ان کی میٹابولک پراڈکٹس کے درمیان بہت قریبی تعلق موجود ہوتا ہے۔ یہ غذائیت کے تعامل کا بنیادی اصول ہے۔ جس میں دو تصورات شامل ہیں۔ سب سے پہلے انفرادی غذائی اجزا میں بہت سے میٹابولک افعال ہوتے ہیں بشمول بنیادی اور معاون کردار کے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی غذائیت کبھی تنہا کام نہیں کرتی۔ یہ بات یاد رکھیں غذائی اجزا ہمارے کھانے میں اس طرح موجود نہیں ہوتے جن کی ہمارے جسم کو ضرورت ہوتی ہے۔ بلکہ وہ غذائی اجزاء ہمارے جسم میں جا کر مختلف کیمائی تعاملات کے بعد اس حالت میں پہنچتے ہیں کہ ہمارے جسم کے اعضاء ان غذائی اجزاء کو استعمال کر سکیں۔

توانائی کے ذرائع

انسانی توانائی کی پیمائش حرارت کی اکائیوں جن کو کیلوری یا کیلوریز کہتے ہیں میں کی جاتی ہے۔ ہمارے چھ غذائی اجزاء جن کا ذکر ہم اوپر کے پیراگراف میں کر چکے ہیں میں سے تین غذائی اجزا توانائی پیدا کرنے والے ہیں۔ ان میں نمبر۱ کاربوہائیڈریٹس، چکنائیاں اور لحمیات یعنی پروٹین شامل ہیں۔ (جاری ہے۔۔۔)