Carbohydrates Relationship with Energy نشاستہ کا توانائی سے تعلق
کسی بھی جاندار کو زندہ رہنے اور اپنی روزانہ کی جدوجہد کیلئے انرجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انرجی کے بغیر کوئی بھی جاندار اپنے افعال صحیح طریقے سے انجام نہیں دے سکتا۔ زمینی توانائی کے نظام میں سورج سے توانائی کو پودے فوٹوسینتھسز کی مدد سے کاربویائیڈریٹس یا نشاستہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
یہ کاربوہائیڈریٹس پودوں کیلئے بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔ انسان اپنے توانائی پودوں، جانوروں سے حاصل کرتے ہیں۔ جسم انسانی کے اندر یہ خاصیت رکھی گئی ہے کہ وہ پودوں سے حاصل کردہ نشاستہ یعنی کاربویائیڈریٹس کو نظام ہضم اور میٹابولزم کے ذریعے توڑ سکتا ہے۔ یہ نشاستہ گلوکوز میں تبدیل ہوجاتا ہے جس سے انسانی جسم انرجی حاصل کرتا ہے۔

انسانی جسم میں انرجی کے استعمال اور اخراج کیلئے کیلوری، کلو کیلوری کے اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ہمارے جس میں دو طرح کے افعال پائے جاتے ہیں۔ ایک فعل کو ارادی افعال یعنی چلنا، پھرنا، باتیں کرنا، کھانا پینا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ارادی افعال یعنی ولینٹری فنکشن کہلاتے ہیں۔
دوسری قسم جسے غیر ارادی افعال جیسے سانس لینا، دل کا دھڑکنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب کے سب انسانی جسم خود کنٹرول کرتا ہے، یہ غیرارادی افعال سوتے جاگتے ہوتے رہتے ہیں۔ ان دونوں افعال یعنی ارادی افعال اور غیر ارادی افعال دونوں کیلئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں کھانا کھانے کے بعد نظام ہضم اور میٹابولزم کی مدد سے حاصل ہوتی ہے۔
Energy Production System توانائی کی تعمیر کا نظام (انرجی پروڈکشن سسٹم)
ایک کامیاب توانائی کا نظام، چاہے کوئی جاندار ہو یا مشین، ایندھن کے ذریعہ سے توانائی پیدا کرنے کے لیے درج ذیل تین چیزیں کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے
نمبر۱: بنیادی ایندھن کو ایک بہتر ایندھن میں تبدیل کریں جسے مشین استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
نمبر۲: اس بہتر ایندھن کو ان جگہوں پر لے جائیں جہاں اس کی ضرورت ہے۔
نمبر۳: اس ریفائنڈ ایندھن کو ان جگہوں پر لگائے گئے خصوصی آلات میں جلا دیں۔
جسم آسانی سے یہ تین کام کسی بھی انسان کی بنائی ہوئی مشین سے زیادہ مؤثر طریقے سے کرتا ہے۔ یہ اپنے بنیادی ایندھن، کاربوہائیڈریٹ کو ہضم کرتا ہے۔ ہضم کے اس عمل کے نتیجے میں گلوز پیدا کرتا ہے، ہمارا جسم اس گلوکوز و دیگر نشاستوں کے تیزی سے جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ گلوکوز جسم انسانی میں خون کے ساتھ گردش کرتا ہوا ہمارے جسم کے ہر سیل میں جاتا ہے، خاص کر جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ جذب ہونے کے بعد گلوکوز ہمارے جسم کے خلیوں میں مخصوس اور پیچیدہ آلات جنہیں مائیٹو کانڈریا کہا جاتا ہے میں میٹابولائز کیا جاتا ہے۔
آخر کار یہ اڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ کی شکل میں توانائی سیلولر میٹابولزم کے عمل سے خارج کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا جسم اے ٹی پی کو بہت تیزی سے ہضم کر سکتا ہے اور یہ انرجی مہیا کرنے کی تیز ترین شکل ہے۔ اسی وجہ سے کاربوہائیڈریٹس کو تیز توانائی فرہام کرنے والی غذا سمجھا جاتا ہے۔
Classification of Carbohydrates کاربوہائیڈریٹ کی درجہ بندی (کلاسز)
کاربوہائیڈریٹس دراصل کاربن، آکسیجن اور ہائیڈروجن کے مجموعہ سے بنتا ہے۔ یہ کیمیسٹری کی برانچ آرگینک کمیسٹری کے درجہ بندی میں آتے ہیں۔ سیکرائیڈ کی اصطلاح کاربوہائیڈریٹس کلاس کے نام سی ایچ او سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے شوگر۔ یہ نام لاطینی زبان کے لفظ سیکرم سے لیا گیا ہے۔ جس کا مطلب شوگر ہوتا ہے۔
نشاستہ کی سیکرائیڈس یونٹس کی تعداد کے مطابق درجہ بندی کی گئی ہے۔ یہ سیکرائیڈز مل کر نشاستہ کی ساخت بناتے ہیں۔ مونو سیکرائیڈ اس کی اکائی ہے۔ بالترتیب ڈائی سیکرائیڈ میں دو مومو سیکرائیڈ اکائیاں، ٹرائی سیکرائیڈ میں تین اکائیاں اسی طرح پولی سیکرائیڈز میں کئی اکائیاں مل کر نشاستے کو بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ذائقہ، اور رنگ بھی کسی حد تک مختلف ہوتا ہے۔
نشاستہ جسم انسانی کو غذائیت مہیا کرنے والی سب سے اہم غذا پولی سیکرائیڈ ہے۔ یہ آپس میں مختلف شاخوں یعنی چینزپر مشتمل ہوتی ہیں۔ ہر ایک شاخ میں گلوکوز کے ۲۴ سے ۳۰ یونٹس ہوتے ہیں۔ یہ شاخیں اور ان میں جڑے گلوکوز کے مالیکیول ہضم کے دوران آہستہ آہستہ خارج ہوتے ہیں۔

Mono Saccharides (Simple Sugars) مونوساکرائیڈز یعنی سادہ شوگر
مانو سیکرائیڈز میں گلوکوز، فریکٹوز اور گلیکٹوز شامل ہیں۔ مانو سیکرائیڈز کو تعمیراتی بلاکس بھی کہتے ہیں۔ انہیں ہضم کرنے کیلئے ڈائی جیشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ آنت سے خون کے دھارے میں تیزی سے جذب ہو کر ہمارے جگر تک پہنچ جاتے ہیں۔ جب ہمارے جسم کو فوری انرجی کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ انرجی مہیا کرتے ہیں۔ اگر جسم انسانی کو فوری انرجی کی ضرورت نہیں ہے تو یہ گلائیکوجن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہ گلائیکوجن بعد میں جسم انسانی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔
Glucose گلوکوز یعنی شکر
انسانی میٹابولزم میں گردش خون میں شامل واحد شکر گلوکوز ہے۔ یہ تمام خلیات کیلئے بطور بنیادی ایندھن کے کام کرتی ہے۔ گلکوز ایک معتدل میٹھی چینی، عام طور پر اس طرح کی خوراک میں نہیں ملتی سوائے مکئی کے شربت یا پراسیس شدہ کھانے کی اشیاء کے۔ جسم انسانی میں گلوکوز نشاستے کو ہضم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ گلکوز کو اس کے کیمیکل سٹریکچر کے حوالے سے ڈیکسٹروز بھی کہتے ہیں۔
Fructose فریکٹوز یعنی پھلوں میں پائی جانی والی شکر
فرکٹوز بھی چینی کی ایک قسم ہے، یہ زیادہ تر پھلوں اور شہد میں پائی جاتی ہے۔ اکثر لوگ شہد کو گلوکوز کے متبادل کے طور استعمال کرتے ہیں جب کہ یہ بھی ایک شکر ہی ہے۔ اس سے بھی خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ پھلوں میں پائی جانے والی یہ چینی پھلوں کے زیادہ پکنے پر منحصر ہوتی ہے۔ جیسے ہی کوئی پھل پک کر تیار ہوجاتا ہے تو پھل کا کچھ ذخیرہ شدہ نشاستہ چینی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ فرکٹوز شوگر سادی چینی کی قسموں میں سے سب سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے۔
کارن سیرپ، جو مکئی کے سٹارچ میں گلوکوزکو فرکٹوز میں تبدیل کر کے تیار کئے جاتے ہیں۔ پروسیسرڈ فوڈ پراڈکٹس، ڈبے بند خوراک اور کولڈ سٹورج پھلوں اور سافٹ ڈرنکس میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ میٹھاس کا سب سے سستا ذریعہ ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عام آدمی ان اشیاء کا استعمال کر کے ضرورت سے زیادہ شکر یعنی چینی کھا جاتے ہیں جس سے ذیابیطس و دیگر امراض بڑھنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
Galactose گلیکٹوز شکر
گلیکٹوز خوراک میں بطور مونوسکرائیڈ اکیلے کبھی نہیں پایا جاتا۔ گلیکٹوز ہمیشہ دودھ کے ہاضمے کی صورت میں پیدا ہوتا ہے۔
Disaccharides ڈائی سکرائیڈز
یہ سادہ شکر کے دو مانوسکرائیڈ یونٹس کے ملنے سے بنتے ہیں۔ جسم انسانی میں تین قسم کی ڈائی سکرائیڈز سب سے اہم ہیں ان میں سکروز، لیکٹوز اور مالٹوز شوگرز شامل ہیں۔ ڈائی سکرائیڈز دو سادہ مختلف یا ایک ہی قسم کے دو مانو سکرائیڈز کے ملنے سے بنتے ہیں۔
سکروز میں ایک مانوسکرائیڈ گلوز اور دوسرا فرکٹوز کا ہوتا ہے۔
لیکٹوز میں ایک مانو سکرائیڈز گلوکوز اور دوسرا گلیکٹوز کا ہوتا ہے۔ مالٹوز میں مانو سکرائیڈ گلوکوز کے دو یونٹس مل کر مالٹوز بناتے ہیں۔
سکروز کا عام طور پر ٹیبل شوگر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ گلوکوز اور فرکٹوز کے ایک ایک یونٹ سے مل کر بنتی ہے۔ اسے برائون شوگر یا پائوڈر شوگر کی شکل میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سکروز زیادہ تر گنے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چقندر سے بھی سکروز حاصل کی جاتی ہے۔ گڑ (مولیسسز) کو بھی گھروں ہوٹلوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کہ چینی کی پیداوار کا ضمنی پیداوار ہے۔ یہ بھی سکروز ہی کی ایک شکل ہے۔ جب عام لوگ خوراک میں شوگر کی بات کرتے ہیں تو ان کا مطلب سکروز کا ہی استعمال ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اسے ٹیبل شوگر بھی کہتے ہیں۔
Lactose (Milk Sugar) لیکٹوز یا ملک شوگر
لیکٹوز شوگر دودھ میں پائی جاتی ہے۔ یہ شوگر میمری غدود بناتے ہیں۔ یہ گلوکوز اور گلیکٹوز مونوسکرائیڈ سے مل کر بنتی ہیں۔ لیکٹوز چینی واحد چینی ہے جو پودے نہیں بنا سکتے۔ اس کی مٹھاس سکروز سے بہت کم ہوتی ہے۔ یہ بہت کم حل پذیر ہوتی ہے۔ لیکٹوز فوری طور پر ہماری آنتوں سے جذب نہیں ہوتا۔ یہ زیادہ دیر تک ہماری آنتوں میں قیام پذیر رہتی ہے۔
قدرت نے اسے زیادہ دیر آنتوں میں اس لئے بھی رکھا ہے کہ یہ ہماری آنتوں میں موجود مفید بیکٹریاز بھی اسے بطور خوراک استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی بڑھوتری ہوتی ہے۔ لیکٹوز یعنی ملک شوگر گائے کے دودھ میں ۴۔۸ فیصد اور انسانی دودھ میں ۷ فیصد تک پائی جاتی ہے۔ لیکٹوز کیلشیم اور فاسفورس کے انجذاب کو بڑھاتا ہے۔ دودھ میں کیلشیم، فاسفورس اور لیکٹوز تینوں پائے جاتے ہیں اسی وجہ سے ہماری آنتیں کیلشیم اور فاسفورس آسانی سے جذب کر لیتی ہیں۔
Maltose مالٹوز شوگر
مالٹوز مالٹوز عام طور پر کھانے کی شکل میں نہیں پایا جاتا ہے۔ یہ جسم کے اندر نشاستے کے درمیانی عمل انہضام کی خرابی سے حاصل ہوتا ہے۔ نشاستہ مکمل طور پر گلوکوز یونٹس سے بنا ہے۔ لہذا، نشاستے کے ٹوٹنے کے دوران، مالٹوز کے بہت سے ڈائی سکرائیڈز یونٹس جاری ہوتے ہیں. مصنوعی طور پر ماخوذ مالٹوز مختلف پراسیس شدہ کھانوں میں استعمال ہوتا ہے۔
جاری ہے۔۔۔