Learn to sweat in peace
طریقہ نمبر 5، سکون میں پسینہ بہانا سیکھیں۔
ایک کہاوت ہے کہ آپ جتنے اپنے آپ میں محنتی ہیں، زندگی آپ کیلئے اتنی ہی آسان ہوگی۔ اسی طرح کی ایک اور کہاوت ہے کہ آپ زمانہ امن میں جتنا زیادہ پسینہ بہائیں گے، جنگ کی صورت میں آپ کا اتنا ہی خون کم بہے گا۔ اس بات کا عملی مظاہرہ میرے بچپن کے دوست ریٹ نکولس نے مجھے عملی طور پر دکھایا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم لوگ لیگ بیس بال کھیل رہے تھے۔ ہم اس بات پر اکثر پریشان ہو جاتے تھے کہ پچرز گیند کو بہت تیزی سے پھینکتے تھے۔ اس وقت ہم لیگ میں تھے۔ ہمارے مخالف پلئیر جن کی عمریں ہمارے اندازے کے مطابق ہم سے زیادہ تھیں۔ وہ کھیل کے دوران اتنی تیزی سے گیند پھینکتے تھے کہ ہمیں ڈر لگتا تھا کہیں ہم زخمی نہ ہو جائیں۔ بیٹنگ کرنا ہمارے لئے مشکل ہو گئی تھی۔ ہم لوگوں اور اپنے دوستوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتے تھے۔

اچانک ریٹ نکولس کو خیال آیا کہ ہم بیٹنگ کے دوران ایسے گیند بازوں کا مقابلہ کرتے آئے ہیں جن کی گیند پھینکنے کی رفتار کم تھی۔ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ناں؟ اس کے بعد اس نے کہا بالکل یہی مسئلہ ہے کہ ہم ان تیز گیند بازوں کا سامنا نہیں کر پا رہے۔ نکولس نے مجھ سے پوچھا کیا تم ایسے بیس بال گیند بازوں کو جانتے ہو جو گیند کو تیزی سے ہمارے لئے پھینک سکیں۔ میرا جواب نفی میں تھا۔ میں نے کہا میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا۔ موجودہ گیند باز ۲۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند بازی کر رہے تھے۔ یقینا اس رفتار سے آنے والی گیند آپ کو بہت چھوٹی نظر آتی ہے یا پھر نظر ہی نہیں آتی۔
Practice makes mans perfect .. مشق انسان کو کامل بناتی ہے
ریٹ نکولس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک سوراخ دار چھوٹی گالف کی گیند نکالی۔ اس طرح کی گیند ہمارے والد گھر کی پچھلی سائیڈ کی دیوار پر مار کرپریکٹس کیا کرتے تھے۔ نکولس نے کہا کہ اپنا بیٹ اٹھائو۔ میں نے بیٹ اٹھایا نکولس نے وہ چھوٹی سی گیند میری طرف اچھال دی۔ میں نے اس گیند کو نشانہ لگانے کی کوشش کی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ گیند تو باقی سب گیندوں سے تیز تھی۔ نکولس نے کہا کہ بس اب ہم اسی سے پریکٹس کریں گے۔ جب تک ہمارا اگلا لیگ میچ نہیں آتا۔
کچھ دنوں کی پریکٹس کے بعد ہم نے اس گیند کو ہٹ کرنا سیکھ لیا۔ ہمارے اندر چستی اور تیزی آ چکی تھی، اس گیند کو تیز رفتاری کے باوجود ہٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں لگ رہا تھا۔ جب ہمارا اگلا لیگ میچ ہوا تو ہمیں دوسرے گیند بازوں کے گیند ایسے لگ رہی تھی جیسے کوئی سست غبارے ہماری طرف پھینک رہا ہے۔ ہم نے وہ میچ آسانی کیساتھ جیت لیا۔
Whenever I’m
afraid of something coming up, I will find a way to do something
اپنے آپ کو زندگی کے عام حالات میں ہمیشہ مشکل چیلنج کا سامنا کرواتے رہو
ریٹ نکولس نے مجھے جو سبق سکھایا وہ میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ اس نے مجھے مشکل کا سامنا کرنا سکھایا۔ اس نے مجھے سکھایا کہ اپنے آپ کو زندگی کے عام حالات میں ہمیشہ مشکل چیلنج کا سامنا کرواتے رہو۔ مشکل کام کرتے رہو اس طرح آپ کے اندر سٹیمنا اور ہمت پیدا ہوتی ہے۔ اور جب کبھی آپ کے سامنے مشکل آن کھڑی ہو تو آپ آسانی سے اس مشکل کو ہینڈل کر لیتے ہو۔ وہ مشکل آپ کیلئے ایک فن سے زیادہ حیثیت نہیں رکھے گی۔

دنیا کے مشہور باکسر محمد علی بھی اسی اصول کو استعمال کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے اگلی لڑائی سے پہلے اپنا ایک ایسا ساتھی چنتے تھے جو ان پر تابڑ توڑ حملے کرے۔ اس طرح محمد علی کو اچھی تیاری اور ایک سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا۔ مگر جیسے ہی وہ لڑائی کیلئے اپنے رنگ میں اترتا، اور اپنے مخالف سے حقیقی میچ کھیلتا تو وہ اپنے مخالف کھلاڑی کو ناک آئوٹ کر دیتا۔ اس کیلئے اپنے مخالف کھلاڑی کو ہینڈل کرنا مشکل کام نہ تھا۔ کیوں کہ وہ اپنے ان میچوں سے پہلے ان تمام کھلاڑیوں سے مقابلہ کر چکا تھا جن کے نام سے لوگ ڈرتے تھے۔ اسی لئے محمد علی جب لڑائی کے میدان میں اترتا تو کامیاب لوٹتا۔
ان کا سامنا کرنے کے بعد، وہ ہر لڑائی میں جانا جانتا تھا کہ وہ پہلے ہی ان مہارتوں سے لڑ چکا ہے اور جیت چکا ہے۔ آپ ہمیشہ اس سے بڑی جنگ کا “مرحلہ” کر سکتے ہیں جس کا آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ کو کسی ایسے شخص کے سامنے پیش کرنا ہے جو آپ کو ڈراتا ہے، تو آپ ہمیشہ اس کی مشق کسی ایسے شخص کے سامنے کر سکتے ہیں جو آپ کو زیادہ ڈراتا ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مشکل کام ہے اور آپ اسے کرنے میں ہچکچاتے ہیں، تو اس سے بھی مشکل چیز کو منتخب کریں اور پہلے اسے کریں۔ دیکھیں کہ یہ “حقیقی” چیلنج میں جانے سے آپ کا دل آپ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا نہیں۔ یقینا آپ کا دل آپ سے کہے گا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، تم اسے کر سکتے ہو۔
(جاری ہے، پچھلی قسط پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں ۔ سٹیو چانڈلر کی کتاب “اپنے آپ کو متحرک کرنے کے سو طریقے” سے ماخوذ)